tag:blogger.com,1999:blog-12690001104848877532024-02-02T20:50:10.598+05:30تجرباتی بلاگیہ ایک تجرباتی بلوگ ہے ۔ ۔ ۔Dr Saif Qazihttp://www.blogger.com/profile/11841457820223178780noreply@blogger.comBlogger6125tag:blogger.com,1999:blog-1269000110484887753.post-42503942209865963062013-09-27T11:40:00.001+05:302013-09-27T11:40:08.455+05:30آب گم سے انتخاب - مشتاق احمد یوسفی<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div style="text-align: right;">
حویلی۔۔ اقتباس</div>
<div style="text-align: right;">
وہ آدمی ہے مگر دیکھنے کی تاب نہیں</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
یادش بخیر! میں نے 1945 میں جب قبلہ کو پہلے پہل دیکھا تو ان کا حلیہ ایسا ہو گیا تھا جیسا اب میرا ہے۔ لیکن ذکر ہمارے یار طرح دار بشارت علی فاروقی کے خسر کا ہے، لہٰذا تعارف کچھ انہی کی زباں سے اچھا معلوم ہو گا۔ ہم نے بارہا سنا آپ بھی سنیے۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
" وہ ہمیشہ سے میرے کچھ نہ کچھ لگتے تھے۔ جس زمانے میں میرے خُسر نہیں بنے تھے تو پھوپا ہوا کرتے تھے اور پھوپا بننے سے پہلے میں انہیں چچا حضور کہا کرتا تھا۔ اس سے پہلے بھی یقیناً وہ کچھ اور لگتے ہوں گے، مگر اس وقت میں نے بولنا شروع نہیں کیا تھا۔ ہمارے ہاں مراد آباد اور کانپور میں رشتے ناتے ابلی ہوئی سویّوں کی طرح الجھے اور پیچ در پیچ گھتے ہوتے ہیں۔ ایسا جلالی، ایسا مغلوب الغضب آدمی زندگی میں نہیں دیکھا۔ بارے ان کا انتقال ہوا تو میری عمر آدھی ادھر، آدھی ادھر، چالیس کے لگ بھگ تو ہو گی۔ لیکن صاحب! جیسی دہشت ان کی آنکھیں دیکھ کر چھٹ پن میں ہوئی تھی، ویسے ہی نہ صرف ان کے آخری دم تک رہی، بلکہ میرے آخری دم تک بھی رہے گی۔ بڑی بڑی آنکھیں اپنے ساکٹ سے نکلی پڑتی تھیں۔ لال سرخ۔ ایسی ویسی؟ بالکل خونِ کبوتر! لگتا تھا بڑی بڑی پتلیوں کے گرد لال ڈوروں سے ابھی خون کے فوارے چھوٹنے لگیں گے اور میرا منہ خونم خون ہو جائے گا۔ ہر وقت غصے میں بھرے رہتے تھے۔ جنے کیوں۔ گالی ان کا تکیہ کلام تھی۔ اور جو رنگ تقریر کا تھا وہی تحریر کا۔ رکھ ہاتھ نکلتا ہے دھواں مغز قلم سے۔ ظاہر ہے کچھ ایسے لوگوں سے بھی پالا پڑتا تھا، جنہیں بوجوہ گالی نہیں دے سکتے۔ ایسے موقعوں پر زبان سے تو کچہ نہ کہتے لیکن چہرے پر ایسا ایکسپریشن لاتے کہ قد آدم گالی نظر آتے۔ کس کی شامت آئی تھی کہ ان کی کسی بھی رائے سے اختلاف کرتا۔ اختلاف تو درکنار، اگر کوئی شخص محض ڈر کے مارے ان کی رائے سے اتفاق کر لیتا تو فورا اپنی رائے تبدیل کر کے الٹے اس کے سر ہو جاتے۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
" ارے صاحب! بات اور گفتگو تو بعد کی بات ہے، بعض اوقات محض سلام سے مشتعل ہو جاتے تھے، آپ کچھ بھی کہیں، کیسی ہی سچی اور سامنے کی بات کہیں وہ اس کی تردید ضرور کریں گے۔ کسی کی رائے سے اتفاق کرنے میں اپنی سبکی سمجھتے تھے۔ ان کا ھر جملہ نہیں سے شروع ہوتا تھا۔ ایک دن کانپور میں کڑاکے کی سردی پڑ رہی تھی۔ میرے منھ سے نکل گیا کہ، آج بڑی سردی ہے، بولے، نہیں۔ کل اس سے زیادہ پڑے گی،۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
" وہ چچا سے پھوپا بنے اور پھوپا سے خسر الخدر لیکن مجھے آخر وقت تک نگاہ اٹھا کر بات کرنے کی جسارت نہ ہوئی۔ نکاح کے وقت وہ قاضی کے پہلو میں بیٹھے تھے۔ قاضی نے مجھ سے پوچھا قبول ہے ؟ ان کے سامنے منھ سے ہاں کہنے کی جرات نہ ہوئی۔ بس اپنی ٹھوڑی سے دو مودبانہ ٹھونگیں مار دیں جنہیں قاضی اور قبلہ نے رشتہ مناکحت کے لئے ناکافی سمجھا قبلہ کڑک کر بولے، لونڈے بولتا کیوں نہیں ؟، ڈانٹ سے میں نروس ہو گیا۔ ابھی قاضی کا سوال بھی پورا نہیں ہوا تھا کہ میں نے، جی ہاں قبول ہے، کہہ دیا۔ آواز ایک لخت اتنے زور سے نکلی کہ میں خود چونک پڑا قاضی اچھل کر سہرے میں گھس گیا۔ حاضرین کھلکھلا کے ہنسنے لگے۔ اب قبلہ اس پر بھنّا رہے ہیں کہ اتنے زور کی ہاں سے بیٹی والوں کی ہیٹی ہوتی ہے۔ بس تمام عمر ان کا یہی حال رہا۔ اور تمام عمر میں کربِ قرابت داری وقربتِ قہری دونوں میں مبتلا رہا۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
" حالانکہ اکلوتی بیٹی، بلکہ اکلوتی اولاد تھی اور بیوی کو شادی کے بڑے ارمان تھے، لیکن قبلہ نے مائیوں کے دن عین اس وقت جب میرا رنگ نکھارنے کے لئے ابٹن ملا جا رہا تھا، کہلا بھیجا کہ دولہا میری موجودگی میں اپنا منہ سہرے سے باھر نہیں نکالے گا۔ دو سو قدم پہلے سواری سے اتر جائے گا اور پیدل چل کر عقد گاہ تک آئے گا۔ عقد گاہ انہوں نے اس طرح کہا جیسے اپنے فیض صاحب قتل گاہ کا ذکر کرتے ہیں۔ اور سچ تو یہ ہے کہ قبلہ کی دہشت دل میں ایسی بیٹھ گئی تھی کہ مجھے تو عروسی چھپر کھٹ بھی پھانسی گھاٹ لگ رہا تھا۔ انہوں نے یہ شرط بھی لگائی کہ براتی پلاؤ زردہ ٹھونسنے کے بعد ہر گز یہ نہیں کہیں گے کہ گوشت کم ڈالا اور شکر ڈیوڑھی نہیں پڑی۔ خوب سمجھ لو، میری حویلی کے سامنے بینڈ باجا ہر گز نہیں بجے گا۔ اور تمہیں رنڈی نچوانی ہے تو Over my dead body، اپنے کوٹھے پر نچواؤ۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
" کسی زمانے میں راجپوتوں اور عربوں میں لڑکی کی پیدائش نحوست اور قہر الٰہی کی نشانی تصور کی جاتی تھی۔ ان کی غیرت یہ کیسے گوارا کرسکتی تھی کہ ان کے گھر برات چڑھے۔ داماد کے خوف سے وہ نوزائیدہ لڑکی کو زندہ گاڑ آتے تھے۔ قبلہ اس وحشیانہ رسم کے خلاف تھے۔ وہ داماد کو زندہ گاڑدینے کے حق میں تھے۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
" چہرے، چال اور تیور سے کوتوال شہر لگتے تھے۔ کون کہہ سکتا تھا کہ بانس منڈی میں ان کی عمارتی لکڑی کی ایک معمولی سی دکان ہے۔ نکلتا ہوا قد۔ چلتے تو قد سینہ اور آنکھیں، تینوں بیک وقت نکال کر چلتے۔ ارے صاحب! کیا پوچھتے ہیں ؟ اول تو ان کے چہرے کی طرف دیکھنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی، اور کبھی جی کڑا کر کے دیکھ بھی لیا تو بس لال بھبو کا آنکھیں نظر آتی تھیں۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
نگہِ گرم سے اک آگ ٹپکتی ہے اسد</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
رنگ گندمی آپ جیسا، جسے آپ اس گندم جیسا بتاتے ہیں جسے کھاتے ہی حضرت آدم، بیک بیوی و دو گوش جنت سے نکال دیے گئے۔ جب دیکھو جِھلاً تے تنتناتے رہتے ہیں۔ مزاج، زبان اور ہاتھ کسی پر قابو نہ تھا۔ دائمی طیش سی لرزہ براندام رہنے کے سبب اینٹ، پتھر، لاٹھی، گولی، گالی، کسی کا بھی نشانہ ٹھیک نہیں لگتا تھا۔ گچھی گچھی مونچھیں جنہیں گالی دینے سے پہلے اور بعد میں تاؤ دیتے۔ آخری زمانے میں بھوؤں کو بھی بل دینے لگے۔ گھٹا ہوا کسرتی بدن ململ کے کرتے سے جھلکتا تھا۔ چنی ھوئی آستین اور اس سے بھی مہین چنی ہوئی دوپلی ٹوپی۔ گرمیوں میں خس کا عطر لگاتے۔ کیکری کی سِلائی کا چوڑی دار پاجامہ، چوڑیوں کی یہ کثرت کہ پاجامہ نظر نہیں آتا تھا۔ دھوبی الگنی پر نہیں سکھاتا تھا۔ علیحدہ بانس پر دستانے کی طرح چڑھا دیتا تھا۔ آپ رات کے دو بجے بھی دروازہ کھٹکھٹا کر بلائیں تو چوڑی دار ہی میں برآمد ہوں گے۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
" واللہ! میں تو یہ تصور کرنے کی بھی جرات نہیں کرسکتا کہ دائی نے انہیں چوڑی دار کے بغیر دیکھا ہو گا۔ بھری بھری پنڈلیوں پر خوب کھبتا تھا۔ ہاتھ کے بنے ریشمی ازار بند میں چابیوں کا گچھا چھنچھناتا رہتا۔ جو تالے برسوں پہلے بے کار ھوگئے تھے ان کی چابیاں بھی اس گچھے میں محفوظ تھیں۔ حد یہ کہ اس تالے کی بھی چابی تھی جو پانچ سال پہلے چوری ہو گیا تھا۔ محلے میں اس چوری کابرسوں چرچا رہا۔ اس لئے کہ چور صرف تالا، پھرہ دینے والا کتا اور ان کا شجرہ نصب چرا کر لے گیا تھا۔ فرماتے تھے کہ اتنی ذلیل چوری صرف کوئی عزیز رشتے دار ہی کرسکتا ہے۔ آخری زمانے میں یہ ازاربندی گچھا بہت وزنی ہو گیا تھا اور موقع بے موقع فلمی گیت کے بازو بند کی طرح کھل کھل جاتا۔ کبھی جھک کر گرم جوشی سے مصافحہ کرتے تو دوسرے ہاتھ سے ازار بند تھامتے، مئی جون میں ٹمپریچر 110 ہو جاتااور منہ پر لو کے تھپڑ سے پڑنے لگتے تو پاجامے سے ائیر کنڈینشنگ کر لیتے۔ مطلب یہ کہ چوڑیوں کو گھٹنوں گھٹنوں پانی میں بگھو کر سر پر انگوچھا ڈالے، تربوز کھاتے۔ خس خانہ و برفاب کہاں سے لاتے۔ اس کے محتاج بھی نہ تھے۔ کتنی ہی گرمی پڑے۔ دکان بند نہیں کرتے تھے۔ کہتے تھے، میاں ! یہ تو بزنس، پیٹ کا دھندا ہے۔ جب چمڑے کی جھونپڑی ( پیٹ ) میں آگ لگ رہی ہو تو کیا گرمی کیا سردی،۔ لیکن ایسے میں کوئی شامت کا مارا گاہک آ نکلے تو برا بھلا کہہ کے بھگا دیتے تھے۔ اس کے باوجود وہ کھنچا کھنچا دوبارہ انہی کے پاس آتا تھا۔ اس لئے کہ جیسی عمدہ لکڑی وہ بیچتے تھے۔ ویسی سارے کانپور میں کہیں نہیں ملتی تھی۔ فرماتے تھے، داغی لکڑی بندے نے آج تک نہیں بیچی، لکڑی اور داغ دار؟ داغ تو دو ہی چیزوں پرسجتا ہے۔ دل اور جوانی۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
</div>
Dr Saif Qazihttp://www.blogger.com/profile/11841457820223178780noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1269000110484887753.post-82725245331232121232013-09-27T11:38:00.000+05:302013-09-27T11:38:08.552+05:30اردو شاعری میں طنز و مزاح ۔۔ محمد شعیب<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div style="text-align: right;">
پاکستان میں کشتِ زعفران کے ایک پُرگو شاعر ہیں۔طنز و مزاح میں ’’گر تو برا نہ مانے،وعلیکم السلام اور ضربِ ظرافت‘‘ جیسے شعری مجموعوں کی بدولت معروف ہیں۔ سیاسی اور سماجی حالات ہوں یا وعظ ومحتسب کی خبر لینی پڑے،عوامی رویوں پر چوٹ کرنی ہو یا اخلاقی انحطاط پر طنز کے تیر برسانے ہوں، امیرالاسلام ہاشمی نڈر اور بے باک سپہ سالار کی طرح کمان سنبھال کر ان پر لشکر کشی کرتے ہیں۔خالص مشرقی روایات کے دلدادہ ہیں اور انھوں نے طنزیہ و مزاحیہ شاعری کو اسلام قبول کرا کر مسلمان بنانے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔اکبر اور اقبال کی طرح قوم کا درد رکھتے ہیں اس لیے ان کی متبسم شاعری اکثر اوقات سنجیدگی کی حدو ں کو چھونے لگتی ہے۔شاعری کے تیور ملاحظہ ہوں :</div>
<div style="text-align: right;">
حیا گرتی ہوئی دیوار تھی، کل شب جہاں میں تھا</div>
<div style="text-align: right;">
نظر اُٹھنا بہت دشوار تھی، کل شب جہاں میں تھا</div>
<div style="text-align: right;">
ڈھکے تھے جسم نازک کے جو حصے ان کے اندر بھی</div>
<div style="text-align: right;">
بلا کی حسرتِ اظہار تھی، کل شب جہاں میں تھا</div>
<div style="text-align: right;">
جنابِ شیخ بھی پیاسے نظر آتے تھے شدت سے</div>
<div style="text-align: right;">
طہارت بر سرِ پیکار تھی، کل شب جہاں میں تھا</div>
<div style="text-align: right;">
قطعات کا ظریفانہ شاعری میں بڑا اہم کردار ہے اور اس صنف میں جدید ترین عہد کے تمام شعرا طبع آزمائی کر رہے ہیں۔ امیر الاسلام ہاشمی کے قطعات اپنے موضوعات سے پورا پورا انصاف کرتے ہیں۔عام طور پر لوگ مساجد میں نئے جوتے پہن کر جانے سے گھبراتے ہیں کیونکہ کئی سر پھرے صرف اس لیے مساجد کا رُخ کرتے ہیں تاکہ نئے جوتے چرا کر لے جائیں۔ عیدین یا جمعہ کی نمازوں کے بعد ایسے مناظر دیکھے گئے ہیں کہ لوگ اپنے جوتوں کی خاطر نماز بھی بڑی بے قراری سے ادا کرتے ہیں۔ جوتا چوری کی اس لعنت کی وجہ سے نمازی اپنے جوتے مسجد کے اندر لے جا کر اپنے سامنے رکھتے ہیں تاکہ چوری سے محفوظ رہیں۔ امیرالاسلام ہاشمی نے اس تشویش ناک پہلو کا مضحکہ اس طرح اُڑایا ہے:</div>
<div style="text-align: right;">
پیغامِ عمل</div>
<div style="text-align: right;">
رات کا وقت بھی ہے اور ہے مسجد بھی قریب</div>
<div style="text-align: right;">
اٹھئے جلدی سے کہ پیغامِ عمل لایا ہوں</div>
<div style="text-align: right;">
گھر میں فی الحال ہیں جتنے بھی پرانے جوتے</div>
<div style="text-align: right;">
آپ بھی جا کے بدل لیں، میں بدل آیا ہوں</div>
<div style="text-align: right;">
سیاست دان جو اپنے آپ کو قوم کا خادم کہلانے پر فخر محسوس کرتے ہیں،ان کی تقاریب کی نوعیت اگر عام آدمی دیکھ لے تو ان خدامِ قوم سے کسی قسم کے مثبت کام کی توقع نہ رکھے۔ ویسے تو ان لوگوں کا ہر کام ہی قوم کے سرمائے کو ڈبونے کا سبب بنتا ہے لیکن صرف ان کے طرزِ خورد و نوش کی ایک ہلکی سی جھلک امیر الاسلام ہاشمی کے ہاں دیکھیے:</div>
<div style="text-align: right;">
کیا بتاؤں تمھیں خدامِ وطن کا مینو</div>
<div style="text-align: right;">
پی کے کیا کھاتے ہیں کیا کھا کے پیا کرتے ہیں</div>
<div style="text-align: right;">
کچھ بھی پیتے نہیں یہ قوم کی یخنی کے سوا</div>
<div style="text-align: right;">
ناشتہ ملتِ بیضہ کا کیا کرتے ہیں </div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
</div>
Dr Saif Qazihttp://www.blogger.com/profile/11841457820223178780noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1269000110484887753.post-83406616078336785312013-09-27T11:36:00.001+05:302013-09-27T11:36:23.960+05:30سائے ۔۔ نجمہ نکہت<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
اس انوکھے اور رنگین شیشوں کے اونچے اونچے دروازوں والے محل کو نیلام کر کے جیسے زلیخا بیگم کی گود خالی ہو گئی اور ایسی ماں بن گئیں جس کا اکلوتا جوان بیٹا مرگیا ہو!</div>
<div style="text-align: right;">
ارمانوں کے پھول مرجھا گئے تھے اور نزدیک کی آوازیں بھی کسی دور جنگل سے آنے والی درختوں کی سائیں سائیں کی طرح کانوں میں آ رہی تھیں اور آج وہ برسوں بعد اپنی بہن سے مل کر اس محل کی کہانی سناتے ہوئے بار بار آنسوؤں کے بیچ اپنیہچکیاں روک رہی تھیں۔ </div>
<div style="text-align: right;">
ہائے آپا بیگم۔ محل تو جیسے میرے خوابوں میں بس گیا ہے اس کی ایک ایک اینٹ یاد آتی ہے۔ اس ساٹھ روپلی والے ذراسے گھر میں تو جیسے زمین تلوؤں سے چپک جاتی ہے۔ محل کی بات ہی نہیں آتی۔ سوتے سوتے اچانک اٹھ بیٹھتی ہوں۔ باغ میں کھلنے والی کھڑکیاں بند کرنے کا خیال آتا ہے۔ ہاتھ اٹھتے ہیں۔ مگر صحرا جیسے صحن میں پھول پھل کہاں ؟ میں ویرا نے میں آ گئی۔ میرے خواب اجڑ گئے۔ ہائے بانجھ عورت کی کوکھ بن گئی ہیں تو ’’انھوں نے ناک پر آنچل رکھ کر سسکی لی۔ زلیخا بیگم۔ برانہ مانو تو ایک بات کہوں۔ یہ سب تمہارا ہی کیا دھرا ہے۔ اللہ جانے ایسی کونسی آفت پھٹ پڑی تھی کہ اتنا شاندار محل بیچ دیا۔ میاں کی نشانی سمجھ کر اپنی زندگی تک تو بچا رکھا ہوتا‘‘۔</div>
<div style="text-align: right;">
لالہ بیگم نے آگ پر تیل چھڑکا تو زلیخا بیگم کا دل آبلہ بن گیا۔ ساری دنیا سے بد دل ہو کے انہوں نے آنسو پونچھ لئے اور اٹھ کے کمرے میں چلی گئیں۔ </div>
<div style="text-align: right;">
محل کے فروخت ہونے کے بعد جیسے کسی نے ان کی زندگی کی ساری خوشیاں ، آرزوئیں و امنگیں بھی فروخت کر ڈالی تھیں اور وہ اپنی آنکھوں میں صرف آنسو ہی بچا سکی تھیں جو بیک وقت مرحوم شوہر اور نیلام شدہ محل کی یاد میں بہائے جاتے تھے۔ اوپر سے زمانہ بھر کی بے مروتی نے ان کی رہی سہی زندگی بھی اداسیوں کے حوالے کر دی تھی ہر وقت دیوار پر نظریں گاڑے وہ حیرت زدہ سی اپنی مسہری پر پڑی رہتیں۔ پچھلی زندگی کی ذرا ذرا سی باتیں اس دور کے اہم واقعات بن گئی تھیں۔ ان سارے واقعات نے ان کے ذہن پر اپنے نوکیلے پنجے گاڑ دیئے تھے۔ سرمہ لگی موٹی موٹی آنکھیں اب بالکل بے رنگ ، ویران لگتیں جن کے اطراف باریک جھریاں دیدے کی حرکت سے تھرایا کرتیں ، سرخ وسفید چہرے پر جھائیاں پڑ گئیں تھیں اور پان کی سرخی سے رہ وقت تر رہنے والے ہونٹ اب اکثر سوکھے سوکھے رہتے۔ </div>
<div style="text-align: right;">
کلائی بھر کے طلائی چوڑیوں کی جگہ اب صرف ایک ایک موٹا بھدا کڑا لٹکی ہوئی جلد کے ساتھ جھولتا رہتا۔ ریشمی کار گے کی پھولدار کرتی کی جگہ سستے ہینڈ لوم کے ڈھیلے ڈھالے کرتے نے لے لی تھی۔ کم خواب دبتی کے اطلس کے تنگ مہری کے پاجامے اب کبھی کبھار شادی بیاہ کے موقع پر ہی دکھائی دیتے ورنہ سفید لٹھے کے چوڑی دار پاجامے ہی پہنے رہتیں اور سفید ململ کے باریک دو پٹے ہی سر پر دیکھے جاتے۔ </div>
<div style="text-align: right;">
مجبوری ، بے بسی و شدید اضطراب نے ان سے زندہ دلی و خوش مزاجی چھین لی تھی۔ غالب کے کلام کی دیوانی اب اکثر فانی کے دیوان کا مطالعہ کیا کرتیں اور جن لوگوں نے فانی کا دیوان ان سے مانگ کر پڑھا تھا وہ جگہ جگہ پانی میں بھیگ کر خراب ہونے والے اور اق دیکھ کر تعجب کرتے۔ ان کو کہانی والی بے بس شہزادی یاد آ جاتی جس کو شہزادے کے پہلو سے آدم خور اٹھا لئے گئے تھے۔ ان بیتے دنوں کا حسن یاد کر کے روتی تھی۔ کیا یونہی جکڑے جکڑے زندگی گذر جائے گی۔ زلیخا بیگم دل ہی دل میں اپنے آپ سے پوچھتیں اور اس وقت ان پر عجیب و غریب دورے پڑتے۔ ڈاکٹر نیند کی دوا دے دے کے انہیں سلادیا کرتے۔ </div>
<div style="text-align: right;">
یہ سوچ سوچ کر ان پر اداسی و قنوطیت طاری ہو جاتی کہ اب وہ کبھی اپنے محل میں قدم نہ رکھ سکیں گی۔ لالہ امر ناتھ کا بنگلہ بن جانے والا ان کا محل پھر زلیخا محل نہ کہلایا جا سکے گا۔ چنبیلی کی نازک سفید کلیاں اب زلیخا بیگم کی خوابگاہ کی بجائے لالہ امر ناتھ کے بڈ روم پر اپنی مہک لٹائیں گی۔ اور باغ کے سامنے منقش ستونوں والے اور انڈے میں جہاں تخت پر مخمل کے غالیچے کا فرش ہوتا اور جس پر بیٹھ زلیخا بیگم اپنے چاندی کے بھاری پاندان سے پان لگا لگا کر نواب صاحب کے خاصدان میں رکھا کرتیں۔ شاید وہاں اب لالہ امر ناتھ کی مسز نے کھانے کی میز لگوا دی ہو۔ </div>
<div style="text-align: right;">
حوض سے آگے کی روش جو بڑے برآمدے تک جاتی تھی۔ اور جہاں کار چوبی مسند پر بیٹھ کے نواب شرافت جنگ کھانے کے بعد حقہ پیا کرتے تھے۔ وہ کھلا بر آمدہ نئے ڈیزائن کی جال لگوا کے بند کر دیا گیا ہے اور اب لالہ امر ناتھ اس خوبصورت ڈرائنگ روم میں ملاقاتیوں کے ناموں کے کارڈ الٹ پلٹ کے دیکھتے اور ایک ایک ملاقاتی کو ملنے کا موقع دیتے تھے شاید کچھ ملاقاتی اب بھی ڈرائنگ روم سے باہر پتلے لمبے کوچ پر بیٹھے ہوں۔ </div>
<div style="text-align: right;">
اس محل میں ان کی جوانی گذری تھی یہیں ان کے بچوں نے آنکھیں کھول کے اپنے تابناک مستقبل کا اندازہ کیا تھا۔۔۔ (نا مکمل)</div>
</div>
Dr Saif Qazihttp://www.blogger.com/profile/11841457820223178780noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1269000110484887753.post-13634038018115548812013-09-27T11:33:00.000+05:302013-09-27T11:33:13.639+05:30جنگی قبرستان از ارشد نیاز<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div style="text-align: right;">
وہ ________</div>
<div style="text-align: right;">
اس خاموش نگری میں آہستہ آہستہ قدم بڑھا رہا تھا جہاں کوئی اجنبی طاقت اسے کھینچ لائی تھی۔ </div>
<div style="text-align: right;">
وہ بڑھ رہا تھا۔ </div>
<div style="text-align: right;">
خاموشی میں ڈوبی کرب انگیز خواہشیں کروٹیں لے رہی تھیں اور اس کے جسم میں سیمابی لہریں یکے بعد دیگرے دوڑ رہی تھیں اسے محسوس ہواجیسے اس کا اپنا بیٹا اس سکوت انگیز فضا میں گم ہو گیا ہو اس کی آنکھیں اشکوں سے لبریز ہو گئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے آنسو کا ایک قطرہ اس مقبرے پر گر کر جذب ہو گیا جس کے کتبے پر یہ درج تھا ________</div>
<div style="text-align: right;">
ڈبلیو۔ اے۔ انگرام</div>
<div style="text-align: right;">
۲۵؍ نومبر ۱۹۴۶</div>
<div style="text-align: right;">
عمر ۲۱؍برس</div>
<div style="text-align: right;">
’’خدا کا وعدہ ہے کہ جب آنکھوں کے آنسو خشک ہو جائیں گے تو ہم لوگ پھر اکٹھے ہوں گے‘‘۔</div>
<div style="text-align: right;">
یہ پڑھتے ہی اسے احساس ہوا جیسے یہ بندوق دھاری فوجی اپنی وردی میں قبر سے باہر نکل آیا ہو اور اپنا لہو لہان چہرہ لئے اس کی حالت پر مسکرارہاہو۔</div>
<div style="text-align: right;">
’’بند کرو ، یہ مسکراہٹ‘‘۔</div>
<div style="text-align: right;">
دفعتاً اس کی آواز گونج اٹھی اوریوں لگا جیسے اس جنگی قبرستان کے تمام بہادر اپنی اپنی قبروں سے باہر نکل آئے ہوں۔</div>
<div style="text-align: right;">
یہ دیکھ کراس نے اپنی آنکھوں کو مسلا ، یقین دلانا چاہا کہ اس وقت جو کچھ بھی اس کے روبرو ہے ، محض ایک دھوکا ہے مگر بیکار، حقیقت چیخ چیخ کر کہہ رہی تھی ________</div>
<div style="text-align: right;">
یہ دوسری عالم گیر جنگ کے وہ بہادر ہیں جنہوں نے فاشزم کے خلاف جنگ لڑ کر خود کو امر بنا لیا۔ہاں ! انہیں دیکھو ، ایک ایک چہرے کو پہچانو ، یہ کھلی کتابیں ہیں۔ انہیں پڑھو ، تب تمہیں معلوم ہو گا کہ جس زندگی کے ایک پریشان کن لمحے سے انسان گھبرا کر موت کی دعا کرتا ہے اس کی اہمیت کیا ہے۔ اب اس کی نگاہیں اطراف کا جائزہ لینے لگیں ________</div>
<div style="text-align: right;">
ایئر فورس کے جوان ایک طرف سینہ تانے کھڑے تھے تو دوسری طرف بحری فوج کے کچھ جوان اپنی المناک داستان سنانے کے لئے حسرت مآب نگاہوں سے اسے ایک ٹک دیکھ رہے تھے جب کہ بری فوج کے جوانوں سے الگ ہٹ کر بندوق دھاری ڈبلیو۔ اے۔ انگرام اسے عجیب نظروں سے گھور رہا تھا۔</div>
<div style="text-align: right;">
’’تم مجھے اس طرح کیوں دیکھ رہے ہو؟‘‘</div>
<div style="text-align: right;">
اچانک اس نے پوچھا اور اس کے قدم اس کی جانب اٹھ گئے ، قریب پہنچا تو پہلے وہ مسکرایا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے۔</div>
<div style="text-align: right;">
’’کیوں انگرام؟ کیوں۔۔۔۔۔۔؟ ! ‘‘</div>
<div style="text-align: right;">
اس نے پوچھا ہی تھا کہ انگرام کی آنکھوں میں تیرتے آنسو جھرنے کی طرح گرنے لگے۔ اسنے اپنے آپ کو قابو میں کرتے ہوئے کہا ________</div>
<div style="text-align: right;">
’’میں اپنی ماں سے اپنی موت سے قبل نہیں مل سکامگر اس کی یادوں کے سہارے ہم۔۔۔۔‘‘</div>
<div style="text-align: right;">
کیا اس وجہ سے کہ وہ درختوں کے پھلوں کو کھائے، کھیتوں سے نکلے ہوئے اناجوں کو اُبال کر اپنا پیٹ بھرے یا پھر اپنی طاقت کے بل بوتے پر کمزوروں پہ ظلم ڈھائے اور اپنے آپ کو آقا کہلوائے یا اپنی مخالف جنس کے پہلو میں پڑا رہے۔</div>
<div style="text-align: right;">
اگر پیدا ہونے کا مقصد صرف یہی ہے تو پھر جانوروں میں اورانسانوں میں کیا فرق ہے؟________</div>
<div style="text-align: right;">
یہی کہ انسان کھانے کے لئے ہاتھوں کا سہارا لیتا ہے اور جانور اپنے منھ کا۔</div>
<div style="text-align: right;">
یہ یقیناً ہمارے پیدا ہونے کا مقصد نہیں ہے۔‘‘</div>
<div style="text-align: right;">
’’پھر کیا ہو سکتا ہے؟‘‘</div>
<div style="text-align: right;">
کسی نے حقیقت جاننے کی کوشش کی۔</div>
<div style="text-align: right;">
ارگاتم بھی یہاں آ کر اٹک سا گیا۔ اس کی سوچ کا پرندہ پھڑ پھڑانے لگا۔ زندگی اپنی معنوی حقیقت اجاگر کرنے سے قاصر ہو گئی اور خود اس کی اپنی زندگی بے مقصد نظر آنے لگی۔</div>
<div style="text-align: right;">
اس مقام پر پہنچ کر وہ تلملا سا گیا۔</div>
<div style="text-align: right;">
اسے خبر تو تھی کہ اس کائنات کو بنانے والی کوئی طاقت ہے مگر اسے یہ علم نہیں تھا کہ زندگی کو سکون و راحت بخشنے والا نظام یعنی روح بھی موجود ہوتی ہے۔انگنت سی نامعلوم چیزیں معلوم ہونے کے لئے خود اس کی ذات میں تڑپ رہی تھیں۔</div>
<div style="text-align: right;">
اور وہ بے چین ہو رہا تھا۔</div>
<div style="text-align: right;">
اسی دوران اس کی زندگی میں ایک خوبصورت سی لڑکی نیرسانام کی منڈلانے لگی جو اسThinkerکو ایک نئی روشنی سے آشنا کرنا چاہتی تھی مگر خیالات میں ڈوبے ہوئے لوگOpposite Sex میں کم ہی دلچسپی دکھاتے ہیں۔</div>
<div style="text-align: right;">
ارگاتم بھی اسی مرحلے سے گزرنے لگا مگر کب تک ________</div>
<div style="text-align: right;">
حسن کے آگے زمانہ سر جھکاتا ہے ،اسے بھی جھکانا ہی پڑا۔</div>
<div style="text-align: right;">
عشق کی لذت نے اس پر زندگی کے بہت سے راز افشا کر دیئے۔</div>
<div style="text-align: right;">
اس کے نظریات بدلنے لگے اور تجربات میں اضافہ ہونے لگا۔</div>
<div style="text-align: right;">
یوں زندگی اس کی کسوٹی پر پرکھی جانے لگی۔</div>
<div style="text-align: right;">
وقت گزرنے لگا اور اس کے ہم خیالوں میں اضافہ بھی ہوتا رہا اور نیرسا اسے زندگی کا جام پلاتی رہی۔</div>
<div style="text-align: right;">
پھر ایک دن بڑے وثوق کے ساتھ اسی چبوترے پر حاضر ہوا۔</div>
<div style="text-align: right;">
وہاں بڑی گہما گہمی تھی۔</div>
<div style="text-align: right;">
وہ مجمع کے سامنے مسکراتے ہوئے اپنے تجربات بیان کرنے لگا۔ </div>
<div style="text-align: right;">
’’زندگی صرف محبت کرنے کے لئے وجود میں آتی ہے۔جس انسان نے ایک دوسرے انسان سے محبت کی دراصل اس نے زندگی گزار لی۔ جس نے نفرت و عداوت کی بھٹی کو اپنی الفت کی مینہ سے سرد کیا،اس نے زندگی کو حاصل کیا۔جس نے دوسروں کے دکھوں اور غموں میں آ کر خوشی حاصل کی،وہ زندگی کی لذت سے آشنا ہوا۔ حقیقتاً محبت ہی وہ عظیم شئے ہے جس سے ہر جنگ جیتی جاسکتی ہے۔‘‘</div>
<div style="text-align: right;">
وہ ہنوز تقریر کر رہا تھا کہ اسی اثناء میں ایک طوفان اٹھا________</div>
<div style="text-align: right;">
دھول اڑاتا ہوا، گھوڑوں کے ٹاپوں تلے زمین کو رو ندتا ہوا۔</div>
<div style="text-align: right;">
ہنگامہ اٹھ کھڑا ہوا۔</div>
<div style="text-align: right;">
ارگاتم اور اس کی جماعت اس افراتفری کا شکار ہو گئی۔</div>
<div style="text-align: right;">
چیخیں بلند ہونے لگیں۔ تلوار ،نیزے اور طپنچے قہر برسانے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ چھو ٹی سی خوبصورت ریاست قبرستان میں بدل گئی کہ فاتح کے سامنے زندگی ایک جنگ ہے جسے وہ ہر قدم پر جیت لینا جانتا ہے،خیر و شر سے بے نیاز</div>
<div style="text-align: right;">
***</div>
</div>
Dr Saif Qazihttp://www.blogger.com/profile/11841457820223178780noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1269000110484887753.post-54966724451076610652013-09-27T11:31:00.000+05:302013-09-27T11:31:11.752+05:30مولانا آزاد کا خط سید سلیمان ندوی کے نام<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<br />
مولانا آزاد کا خط سید سلیمان ندوی کے نام<br />
<br />
دارالمصنفین اور علامہ شبلی نعمانی سے تعلق کی بنا پر مولانا ابوالکلام آزاد کے تعلقات سید سلیمان ندوی سے بہت دیرینہ تھے۔ اس تعلق کی وجہ سے دونوں کے بیچ خطوط کا سلسلہ جاری رہا۔ یہ خطوط علمی، ادبی اور تاریخی اعتبار سے نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔ زندگی کے آخری مرحلہ میں آزادکو یہ درد ستانے لگا کہ ان کے بعد ”الہلال“ کو کون سنبھالے گا، چنانچہ اسی قلق واضطراب میں انہوں نے ےہ خط سید سلیمان کو لکھا۔<br />
نو جنوری 1914 ، کلکتہ<br />
صدیقی الجلیل الاعز،<br />
افسوس کہ میں جس خط کا منتظر تھاوہ باوجود وعدہ آپ نے نہیں لکھا، بہرحال آج میں اپنے شورش قلبی سے مجبور ہوکر ایک بار اور کوشش وصل کرتا ہوں۔ آپ نے پونہ میں پروفیسری قبول کرلی، حالانکہ خدانے آپ کو درس وتعلیم سے زیادہ عظیم الشان کاموں کے لئے بنایا ہے۔کیا حاصل اس سے کہ آپ نے چند طالب علموں کو فارسی وعربی سکھا دی، آپ میں وہ قابلیت ہے کہ لاکھوں نفوس کو زندگی سکھلاسکتے ہیں۔<br />
میرے تازہ حالات آپ کو معلوم نہیں، خدا شاہد ہے مسلسل چار گھنٹے کام نہیں کر سکتا، ورنہ آنکھوں میں تاریکی چھا جاتی ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ ’الہلال‘ ایک تحریک تھی جس نے استعداد پیدا کی لیکن اس استعداد سے معاً کام لینا چاہئے، اور میں نے قطعی ارادہ کر لیا ہے کہ خواہ الہلال کی کچھ ہی حالت کیوں نہ ہو لیکن کام شروع کر دیا جائے، چنانچہ شروع بھی کر دیا ہے، ایسی حالت میں قباحت ہے، اگرچہ آپ باوجود استطاعت و طاقت رکھنے کے میری اعانت سے انکار کر دیں۔ آپ یاد رکھئے کہ اگر ان مصائب و موانع کی وجہ سے میں مجبور رہ گیا تو قیامت کے دن یقینا آپ اس کے ذمہ دار ہوں گے کہ آپ نے ایک بہت بڑے وقت کے رد عمل کو اپنی علیحدگی سے ضائع کر دیا۔ آپ آ کر الہلال بالکل لے لیجئے، جس طرح جی چاہئے اسے ایڈٹ کیجئے، مجھے سوا اس کے اصول و پالیسی کے (جن میں آپ مجھ سے متفق ہیں) اور کسی بات سے تعلق نہیں، میں بالکل آپ پر چھوڑتا ہوں اور خود اپنے کاموں میں مصروف ہو جاتا ہوں، صرف اپنے مضامین دے دیا کروں گا، اور کچھ تعلق نہ ہوگا۔<br />
ایک وقت یہ ہے کہ ہر کام کے لئے شرائط کا اظہار ضروری ہے، اور ایسا کیجئے تو آپ کہتے ہیں کہ طمع دلاتے ہو، استغفراللہ، لیکن میں یقین دلاتا ہوں کہ بغیر کسی ایسی نیت کے محض شرائط معاملہ کے طور پر چند امور عرض کرتا ہوں۔<br />
یہ ایک بہتر کام ہے جو الہلال کی گرفتاریوں کی وجہ سے میں شروع نہیں کر سکتا۔ اب اگر اور دیر ہو گئی تو سخت نقصان ہوگا اور اسی لئے میں نے آخری فیصلہ اس کی نسبت کر لیا ہے۔ میں آپ کو پابند نہیں کرنا چاہتا لیکن اگر آپ خود چاہیں تو جتنی مدت کے لئے کہیں معاہدہ قانونی بھی ہو سکتا ہے۔<br />
مجھ کو پوری امید ہے کہ میری یہ سعی بے کار نہ جائے گی کیونکہ میں سچے دل سے آپ کا طالب ہوں اور یقین رکھتا ہوں کہ سچی طلب و مودت ہمیشہ کامیاب ہوتی ہے۔<br />
ابوالکلام<br />
<br />
<br />
بشکریہ ٹی ایس آئی<br />
<div>
<br /></div>
</div>
Dr Saif Qazihttp://www.blogger.com/profile/11841457820223178780noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1269000110484887753.post-19438071788263242632013-09-27T11:29:00.005+05:302013-09-27T11:29:52.308+05:30غزل از ڈاکٹر جاوید جمیل <div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
غزل<br />
از ڈاکٹر جاوید جمیل<br />
<br />
کیسا ساماں کیسی منزل کیسی رہ کیسا سفر <br />
ہمسفر ہی جب نہیں ہے کیسے پھر ہوگا سفر<br />
<br />
نفس_امّآرہ سے نفس_مطمئنه تک کی رہ<br />
آتشیں موسم زمیں پرخار اور تنہا سفر <br />
<br />
حسرت_دیدار ایسی فیصلہ کن تھی مری<br />
لمحہ بھر میں ہو گیا اک عمر سا لمبا سفر <br />
<br />
پہلے منزل سامنے تھی اب نظر سے دور ہے<br />
جانے کیسے کیا ہوا کس موڑ پر بھٹکا سفر<br />
<br />
ان چٹانوں میں کہاں یہ حوصلہ روکیں مجھے<br />
کرتا ہوں جاوید میں بھی صورت دریا سفر<br />
<br />
<div>
<br /></div>
</div>
Dr Saif Qazihttp://www.blogger.com/profile/11841457820223178780noreply@blogger.com0